Alfia alima

Add To collaction

ساحل کی ذلت

ساحل کی ذلت
(گلزار اور بھوشن بن مالی کے لئے) 

میں نے کہا تھا، اس نے کہا تھا۔۔۔ کس نے کہا تھا، یہ سکّوں کا شہر ہے، یہاں گلیوں میں چاندی بہتی ہے۔ 

میں نے سنا تھا اور اس نے بھی سنا تھا لیکن کس نے کہا تھا؟ 

اگر میں نے کہا تھا تو اس نے سنا تھا اور میں نے بھی۔ 

اگر اس نے کہا تھا تو میں نے سنا تھا اور اس نے بھی 

ہم دونوں ایک دوسرے کا ’وہ‘ تھے، ایک دوسرے کا ’تم‘ کبھی نہ بن سکے کہ وہ ننگا تھا۔ 

اس کا سب کچھ اس کا اپنا تھا۔۔۔ صرف اس کے ہاتھ اس کے اپنے نہ تھے۔ 

اس کی رانوں کی جیبیں جن کا لکیر سا منھ کولھوں سے ذرا نیچے تھا، گھنٹوں تک گہری تھیں اور بجتے ہوئے چھوٹے بڑے مستطیل کاغذوں سے بھری ہوئی تھیں جو سونے اور چربی(چاندی؟) سے مہنگے تھے۔ 

اس کارن کہ اس کی جیبیں بھری ہوئی تھیں، اس کی رانوں پر مجھے ارٹی کیریا کا میرے دل برابر دھبہ نظر آرہا تھا۔ 

میں جو ہمیشہ اپنے اسی پرانے، سرسراتے ہوئے اور راہگیروں سے الجھتے ہوئے لباس میں رہتا ہوں، اس کے ساتھ اس لیے لگا ہوا تھا کہ اسے کھنکتی دھاتوں کے چھوٹے بڑے آبلوں سے نفرت تھی۔ 

اس کی نفرت نے میرا پیٹ بھرا تھا جو برسوں پہلے اسی شہر میں میری رانوں اور پنڈلیوں کی مچھلیاں تک چبا چکا تھا۔ 

میں اور وہ۔۔۔ وہ میرا وہ اور میں اس کا وہ۔۔۔ میرا سب کچھ میرا نہ تھا، اس کا سب کچھ اس کا اپنا تھا۔۔۔ صرف اس کے ہاتھ اس کے اپنے نہ تھے۔ 

اس کے ہاتھ اس کے اپنے نہ تھے کہ نہ ر گیں تھیں، نہ بال تھے، نہ مسام تھے، نہ لکیریں تھیں۔۔۔ نہ انگلیاں چٹختی تھیں، نہ ناخن اگتے تھے۔۔۔ وہ واحد ہاتھ تھے، وہ واحد انگلیاں تھی جو کہیں بھی، کوئی بھی نشان نہ چھوڑتی تھیں۔ 

اور میری اور اس کی آواز میں صرف اتنا فرق تھا کہ اس کی آواز میری آواز سے پہلے سنی جاتی تھی۔۔۔ اور سننے والے کانوں کی کہانی بھی صرف اتنی تھی کہ وہ میری آواز سننے سے پہلے اس کی آواز سننے کے عادی ہو چکے تھے۔ 

وہ کہ اس شہر میں مجھ سے پہلے پہنچا تھا، اس نے ایک نظر میں بھانپ لیا، میرا سب کچھ میرا نہیں ہے، صرف میرے ہاتھ میرے ہیں۔ وہ جانتا تھا، میرے ہاتھ اگر میرے رہے تو وہ سب کچھ جو میرا نہیں ہے، میرا ہوجائے گا اور اس کا سب کچھ جو اس کا اپنا ہے، اس کا نہ رہے گا۔ 

میں کہ اس شہر کی بسوں کی کھڑکیوں سے دمکتے چمکتے ابرق کی کٹی پھٹی لرزاں سی چادر کو تکا کرتا تھا اور روتا رہتا تھا اور جانتا تھا کہ میری آنکھوں کا رونا، میرا رونا، میرا نہیں ہے، ایک دن میں نے اسے دیکھا۔ 

وہ ننگا تھا۔ 

اس نے اپنی دائیں ران کی جیب میں ہاتھ ڈالا، بجتے ہوئے چند چھوٹے بڑے مستطیل کاغذ نکالے، ایک نظر مجھے دیکھا۔۔۔ مجھے یوں محسوس ہوا۔۔۔ اور کاغذوں کے ٹکڑے ہوا میں اچھال دیے۔ 

وہ سب کچھ کہ میرا نہیں تھا، اب امکانات کی حدود سے دور کا قصہ ہوگیا جہاں ابرق کی کٹی پھٹی چادر تانبے کے بوجھ تلے دب رہی تھی۔۔۔ ہوا صرف اتنا تھا کہ ہوا میں اڑتے ہوئے مستطیل کاغذ میری نگاہ کا مرکز بن گئے اور مجھے مربع شکل نظر آنے لگے۔ 

بات یہاں تک رہتی تو کوئی بات ہی نہ ہوتی کہ میری نگاہوں کی لغزش اس کے لبوں کی مسکان مشکل ہی سے بنتی۔ 

ہوا بہت کچھ تھا۔۔۔ جیسے ہی مربع شکل کاغذ مجھے دکھائی دیے، میرے ہاتھ آپ سے آپ ان کی سمت اٹھے اور پھر میرے بازو میری مفلس سوچ بن کر اتنے لمبے ہوگئے کہ بجتے کاغذ میری گرفت میں آگئے اور اس سمے کہ میں سب کچھ دیکھ رہا تھا، یہ نہ دیکھ سکا، ابرق کی مٹی مٹی سے کتھئی چمک میں میرے ہاتھ میرے لمبے ہاتھوں سے کہیں لمبے ہوگئے ہیں اور یہ اس نے دیکھ لیا کہ اس کہ ہاتھ اس کے اپنے نہ تھے اور یوں اس کے میرے اور میرے اس کے تعلقات کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو زوال کی داستانوں میں بھی لکھا نہیں گیا۔ 

اس تعلق میں اول و آخر وہ تھا اور میں اول و آخر کی کاغذی چڑیا جو اس کے بجتے کاغذوں کا گوشت پوشت تھی۔ 

میں جس کی کل کائنات پچکا ہوا پیٹ سمیٹے ہوئے تھا، جس کی نگاہ بس کی کھڑی کی وسعت سے باہر کی بات نہ تھی اور جس کے ہاتھ اس کے پیٹ اور نگاہ کے پابند تھے، یکایک لذتوں کی اونچی عمارتوں کے بیچ پہنچ گیا۔ 

ہوش گم ہونا غیر فطری نہیں تھا، ہوش گم ہوگئے۔ 

میری زندگی کے وہ دن جو ان گنت تھے اور جن کی نامعلوم تعداد مجھے حیرت زدہ کیا کرتی تھی، اب میرا انگوٹھا ان دنوں کا حساب میری انگلیوں کے پپوٹے ٹٹولنے سے لگا لیتا۔ 

کیا یہ لذتوں کی اونچی عمارتوں کا کرشمہ تھا؟ 

لذتوں کی اسیری، کانچ کی اونچی عمارتوں کی برہنگی تھی۔ 

ننگے کو ننگا دیکھا تو ننگا ہونے کی خواہش جان کو آگئی۔۔۔ کپڑے اتارتا، ننگا ہوتا، لیکن ننگا نہ ہو پاتا کہ وہ اس شہر میں مجھ سے پہلے پہنچا تھا اور اس کے ہاتھ نہ تھے اور وہ ننگا تھا۔۔۔ میں کپڑے پہن لیتا۔ 

اور جب پستہ قد کرسیوں میں پھنسے ہوئے، کسے ہوئے جسموں اور چھوٹی میزوں پر رکھے ہوئے پندرہ سے چالیس برس تک کی عمر کے گول پستانوں کو چھونے کی خواہش میرے جبڑے کا کرب بنی۔۔۔ یہ ایک اجنبی کا کرب، ایک اجنبی کا رد عمل تھا۔۔۔ تو کانچ کی دیوار کی اس اور سے اس کی صاف شفاف پتلیوں کی ایک جنبش نے میرے دانتوں کو دھار، زبان کو زہر اور لعاب کو خوشبو اور جبڑے کو سکون بخشا۔ 

یہ مجھے بہت دیر بعد معلوم ہوا کہ اس کے ہاتھ اور اس کی انگلیاں کہیں بھی، کوئی بھی نشان نہ چھوڑتی تھیں۔۔۔ ڈھلے ڈھلائے جسم جن کی شناخت میری مشکل تھی، یوں آسانی سے حل ہوگئی کہ کہے نہیں بنتی۔ 

اگر کہنا صرف اتنا ہو کہ وہ چوبیس برس کا الف تھا اور اس کے ہاتھ اس کے اپنے تھے اور وہ چالیس برس کا جنگل تھی یا ابلتی دلدل تھی تو بات نہیں بنتی اور بات کا بننا یوں ضروری ہے کہ وہ مجھ سے پہلے وہاں پہنچا تھا۔ 

اس کی رگوں میں ابھی ماں کا دودھ خون نہیں بنا تھا اور۔۔۔ اور وہ ایک ایسی ماں تھی جس کی رگوں میں چونا، کتھا اور تمباکو، لذتوں کی عمارتوں کی بلندی، عشق کے کاغذی گھر، فنونِ لطیفہ کا بھرم اور کروڑوں تماش بینوں کی حسرتوں کا نشہ کھنچا رہتا تھا۔۔۔ جب وہ اسے چھوڑ گئی، وہ ٹوٹا۔۔۔ اس کے بھائی نے ایک اور عشق میں شہرت حاصل کی اور خود کشی کرلی۔۔۔ وہ ٹوٹا اور جب اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔۔۔ دل کی دھڑکن غائب تھی۔ 

یہ بھی اسے ایک مدت کے بعد پتہ چلا کہ وہ اس کے ہاتھ اپنے ساتھ لے گئی ہے اور اسے ایسے ہاتھ دے گئی ہے جو خود اس کے اپنے دل کی دھڑکن محسوس نہیں کر سکتے۔ 

یہ وہی ہاتھ تھے جو اس کے اپنے نہ تھے اور یہ وہی ہاتھ تھے، وہیں انگلیاں تھیں جو کہیں بھی، کوئی بھی نشان نہ چھوڑتی تھیں اور انہیں ہاتھوں نے اس کے جانے کے بعد اس کے لیے وہ کام کیا تھا جو خود اس کے اپنے ہاتھ نہ کر پائے تھے۔ 

اور جب وہ بستر سے لگ گئی اور کہ اب وہ اس کی ماں تھی، وہ اسے ملنے گیا۔۔۔ اس کی چھاتی میں منہ چھپا کر روتا رہا اور پھر اس کے دیے ہوئے ہاتھوں سے اس کے پستان سہلاتا رہا۔۔۔ وہ دیکھ سکتا تھا، محسوس نہ کر سکتا تھا اور تب وہ آخری بار رویا اور سمجھ گیا کہ وہ کیا ہے؟ کون ہے؟ اور اسے کیا کرنا ہے؟ 

کنوارا جسم ہوتا یا لذتوں کی اونچی عمارت۔۔۔ وہ تالا کھولتا، کسی کو کچھ پتہ نہ چلتا۔ 

وہ شہر جو اس جیسے کئی لوگوں کا تھا، اب صرف اس کا تھا اور میں یہ راز جان چکا تھا کہ وہ شہر صرف اس وجہ سے اس کا ہے کہ وہ مجھ سے پہلے وہاں پہنچا تھا۔ 

اور اس شہر پر حکم اس کا چلتا تھا جس کے ہاتھ اس کے اپنے نہ ہوں۔ 

میں کہ اس کی نفرت میرا پیٹ بھرتی تھی، اس کا سراغ پا چکا تھا اور اس بات کا یقین مجھے تب ہوا جب اس نے اس کا دیا ہوا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا۔۔۔ وہ ننگا تھا۔۔۔ میرا سرسراتا ہوا لباس اس سے لپٹ رہا تھا۔۔۔ مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ میں سمجھ گیا، وہ سب کچھ سمجھ رہا ہے! 

میں نے اسے دھوکہ دیا۔۔۔ میں چپ رہا۔۔۔ میں خاموش رہا۔۔۔ ہونٹ کاٹتا رہا۔۔۔ حالانکہ میں مسکرانا چاہتا تھا۔ میں اس بڑھیا کے گھر گیا جو اس کی انگلیوں کا کھلونا تھا، جو اس کے الف کا نرم گرم پیار تھی اور جو اس کے منھ چھپانے اور رونے کا تکیہ تھی۔۔۔ میں جان گیا تھا کہ اس شہر کے دستور کے مطابق اب یہی سب میرے ساتھ ہونے والا ہے۔۔۔ اور میری خواہش بھی تو یہی تھی۔ 

میں نے اس کی گردن توڑ دی۔ 

اس کے ہا تھ جو اس نے چھپا رکھے تھے، ڈھونڈنا شروع کیے۔ 

لحاف اٹھایا۔۔۔ دیکھا۔۔۔ دو کٹے ہوئے ہاتھ اس کی رانوں کواپنے شکنجے میں لیے ہوئے ہیں۔ 

میں نے دونوں ہاتھ اپنے سفید رومال میں باندھ لیے اور اس اونچی عمارت کی جانب چل پڑا جو بلند تھی، لذت تھی، کانچ تھی۔۔۔ اس عمارت میں بارہا جانے کے باوجود، یہ میرا پہلا قدم تھا۔ 

اس نے مجھے دیکھا۔۔۔ صرف دیکھا۔۔۔ کیا کچھ نہ دیکھا۔۔۔ اور وہ ہاتھ جو اس کے اپنے نہ تھے، علیحدہ کیے اور بنا اپنے ہاتھ لیے کانچ کے لذت کدے سے باہر نکل گیا۔ 

چند ہی لمحوں کے بعد میرے تلوے جلنے لگے۔۔۔ میں ننگا تھا۔۔۔ اب کیا دیکھتا ہوں، دمکتے چمکتے ابرق کی کٹی پھٹی لرزاں سی چادر لوہے کی طرح تپ رہی ہے اور تانبے کی وسعت جھکتی چلی آرہی ہے۔ 

   1
0 Comments